آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی
آنکھوں سے مری اس لیے لالی نہیں جاتی |
یادوں سے کوئی رات جو خالی نہیں جاتی |
اب عمر نہ موسم نہ وہ رستے کہ وہ پلٹے |
اس دل کی مگر خام خیالی نہیں جاتی |
مانگے تو اگر جان بھی ہنس کے تجھے دے دیں |
تیری تو کوئی بات بھی ٹالی نہیں جاتی |
آئے کوئی آ کر یہ تیرے درد سنبھالے |
ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی |
معلوم ہمیں بھی ہیں بہت سے تیرے قصے |
پر بات تیری ہم سے اچھالی نہیں جاتی |
ہمراہ تیرے پھول کھلاتی تھی جو دل میں |
اب شام وہی درد سے خالی نہیںجاتی |
ہم جان سے جائیں گے تبھی بات بنے گی |
تم سے تو کوئی راہ نکالی نہیں جاتی |
پیشکش: شعبۂ تحریر و پیشکش تبیان
متعلقہ تحریریں:
میری آنکھوں میں آنسو پگھلتا رہا، چاند جلتا رہا
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہجر میں کیا کرتے ہیں